راہ تاریک تھی دشوار تھا ہر ایک قدم
منزل زیست کے ہر گام پہ ٹھوکر کھائی
مشعل عزم لیے پھر بھی میں بڑھتا ہی رہا
درد و آلام کی آندھی جو کبھی تیز ہوئی
دامن شوق میں مشعل کو چھپایا میں نے
بہر بندگی و شعلگی مشعل عزم
میری شریانوں کا ہر قطرۂ خوں واقف ہوا
دامن شوق بھی جل بجھ کے کہیں راکھ ہوا
اور پھر دھندلی ہوئی بجھتی گئی مشعل عزم
راہ کچھ اور بھی تاریک وہ سیہ ہوتی گئی
گھور اندھیارے کے عفریت مجھے ڈستے رہے
زندگی اپنی ان ہی بھول بھلیوں میں رہی
اپنی منزل کا مگر مجھ کو پتہ مل نہ سکا
ہم سفر اور بھی کچھ ساتھ چلے تھے میرے
ان میں وہ جوش جنوں اور نہ وہ عزم و یقیں
مست و سرشار رہے بادۂ غفلت پی کر
خواب خرگوش میں ہر گام پہ مدہوش رہے
ان کی منزل نے مگر ان کے قدم چوم لیے
ان کی اس نصرت بے جا پہ مجھے رشک نہیں
آج بھی مجھ میں ہے وہ جوش جنوں عزم و یقیں
آج بھی ناز ہے گو جہد و عمل پہ اپنے
مصلحت کوش نہیں آج بھی معصوم جنوں
خضر کی بے جا خوشامد پہ نہیں راضی ہنوز
ہاں مگر ذہن کے پردے پہ ابھرتے ہیں سوال
خضر کی بے جا خوشامد ہی مقدم ہے یہاں
وصل منزل کے لیے پائے جنوں شرط نہیں
نظم
پائے جنوں شرط نہیں
ظہیر صدیقی