بہت جی چاہتا ہے ہر کسی سے پیار کرنے کو
مگر ایسی کہاں قسمت کہ دل مجھ کو ڈراتا ہے
کئی بے رنگ سے خاکے کئی صد رنگ تصویریں
خدا معلوم کن تاریکیوں سے کھینچ لاتا ہے
سناتا ہے کبھی بیتی ہوئی باتوں کی شہنائی
کبھی ماضی کے البم سے مجھے فوٹو دکھاتا ہے
جنہیں میں بھول جانا چاہتا ہوں وہ حسیں چہرے
زبردستی دکھاتا اور مجھ پر مسکراتا ہے
انہیں کیا جانتے ہو تم انہیں پہچانتے ہو تم
ادائے طنز سے ہر ایک پر انگلی اٹھاتا ہے
یہی تو ہیں وہ جن کے رات دن تم گیت گاتے تھے
یہی تو ہیں وہ جن پر پیار اب بھی تم کو آتا ہے
میں کہتا ہوں خدا کے واسطے خاموش ہو جاؤ
ستانے میں کسی مجبور کو کیا لطف آتا ہے
مری مجبوریاں کافی نہیں کیا منہ چڑھانے کو
جو تو بھی منہ چڑھاتا اور میری جان کھاتا ہے
جسے میں چاہتا ہوں پیار کر سکتا نہیں اس سے
میں جس سے پیار کرتا ہوں وہ مجھ سے روٹھ جاتا ہے
نظم
مجبوری
طالب چکوالی