مٹیالے مٹیالے بادل گھوم رہے ہیں میدانوں کے پھیلاؤ پر
دریا کی دیوانی موجیں ہمک ہمک کر ہنس دیتی ہیں اک ناؤ پر
سامنے اودے سے پربت کی ابر آلودہ چوٹی پر ہے ایک شوالا
جس کے عکس کی تابانی سے پھیل رہا ہے چاروں جانب ایک اجالا
جھلمل کرتی ایک مشعل سے محرابوں کے گہرے سائے رقصیدہ ہیں
ہر سو پریاں ناچ رہی ہیں جن کے عارض رخشاں نظریں دزدیدہ ہیں
عنبر اور لوبان کی لہریں دوشیزہ کی زلفوں پہ ایسے بل کھاتی ہیں
چاندی کے ناقوس کی تانیں دھندلے دھندلے نظاروں میں گھل جاتی ہیں
ہاتھ بڑھائے سر نہوڑائے پتلے سایوں کا اک جھرمٹ گھوم رہا ہے
پوجا کی لذت میں کھو کر مندر کے تابندہ زینے چوم رہا ہے
ایک بہت پتلی پگڈنڈی ساحل دریا سے مندر تک کانپ رہی ہے
ناؤ چلانے والی لڑکی چپو کو ماتھے سے لگائے ہانپ رہی ہے
دیوانی کو کون بتائے اس مندر کی دھن میں سب تھک ہار گئے ہیں
سائے بن کے گھوم رہے ہیں جو بے باک چلانے والے پار گئے ہیں
وہ جب ناؤ سے اترے گی مٹیالے مٹیالے بادل گھر آئیں گے
میدانوں پر کہساروں پر دریا پر ناؤ پر سب پر چھا جائیں گے
اول تو پگڈنڈی کھو کر گر جائے گی غاروں غاروں میں بیچاری
بچ نکلی تو ہو جائے گی اس کے نازک دل پر اک ہیبت سی طاری
ہوش میں آئی تو رگ رگ پر ایک نشہ سا بے ہوشی کا چھایا ہوگا
جسم کے بدلے اس مندر میں دھندلا اک لچکیلا سایا ہوگا
نظم
ازلی مسرتوں کی ازلی منزل
احمد ندیم قاسمی