EN हिंदी
ازل تا ابد | شیح شیری
azal-ta-abad

نظم

ازل تا ابد

بشر نواز

;

افق تا افق یہ دھندلکے کا عالم
یہ حد نظر تک

نم آلود سی ریت کا نرم قالیں کہ جس پر
سمندر کی چنچل جواں بیٹیوں نے

کسی نقش پا کو بھی نہ چھوڑا
فضا اپنے دامن میں بوجھل خموشی سمیٹے ہے لیکن

مچلتی ہوئی مست لہروں کے ہونٹوں پہ نغمہ ہے رقصاں
یہ نغمہ سنا تھا مجھے یاد آتا نہیں کب

مگر ہاں
بس احساس ہے اس قدر قر نہا قرن پہلے

کہ گننا بھی چاہے تو کوئی جنہیں گن نہ پائے
بھلا ریگ ساحل کے پھیلے ہوئے ننھے ذروں کو کوئی کہاں تک گنے

مچلتی ہوئی مست لہروں کو ساحل سے چھٹنے کا غم ہی نہیں ہے
وداع سکوں جیسے کوئی ستم ہی نہیں ہے

جسے قر نہا قرن پہلے بھی میں نے سنا تھا
جسے لوگ سورج کے بجھنے تلک یوں ہی سنتے رہیں گے