کھڑے ہو آج جس تہذیب کے اونچے منارے پر
سجایا ہے اسے شاید ہمیں بدنام لوگوں نے
جدھر سے چل کے تم پہنچے ہو ان زریں منازل تک
دکھائی ہے تمہیں وہ راہ ہم ناکام لوگوں نے
تمہاری بزم ذہن و فکر کی آرائشیں کی ہیں
ہم ایسے ہی اسیر گل اسیر جام لوگوں نے
تمہارے جادۂ گل رنگ کی یہ احمریں شمعیں
جلائی ہیں ہم ایسے ہی اسیر دام لوگوں نے
کسی انداز سے لیکن تمہیں پہنچا دیا ہوگا
نئی دنیا نئے انساں کا یہ پیغام لوگوں نے
کہ اکثر اپنے ہی تخئیل کے خوش رنگ پھولوں کو
مسل کر پھینک ڈالا ہے بہ وقت شام لوگوں نے
بٹھا کر معبد زریں میں خود نوریں خداؤں کو
کیا ہے کس طرح خود ہی انہیں ناکام لوگوں نے
حسیں تعبیر دو یا تم ہمارے خواب لوٹا دو
ہماری معرفت بھیجا ہے یہ پیغام لوگوں نے
نظم
عوام
سلام ؔمچھلی شہری