تو پریم مندر کی پاک دیوی تو حسن کی مملکت کی رانی
حیات انساں کی قسمتوں پر تری نگاہوں کی حکمرانی
جہان الفت تری قلمرو حریم دل تیری راجدھانی
بہار فطرت ترے لب لعل گوں کی دوشیزہ مسکراہٹ
نظام کونین تیری آنکھوں کے سرخ ڈوروں کی تھرتھراہٹ
فروغ صد کائنات تیری جبین سیمیں کی ضو فشانی
بھڑکتے سینوں میں بس رہی ہیں قرار بن کر تری ادائیں
ترستی روحوں کو جام عشرت پلا رہی ہیں تری وفائیں
رگ جہاں میں تھرک رہی ہے شراب بن کر تری جوانی
دماغ پروردگار میں جو ازل کے دن سے مچل رہا تھا
زبان تخلیق دہر سے بھی نہ جس کا اظہار ہو سکا تھا
نمود تیری اسی مقدس حسیں تخیل کی ترجمانی
ہے وادی نیل پر ترا ابر زلف سایہ کناں ابھی تک
ہیں جام ایراں کی مے میں تیرے لبوں کی شیرینیاں ابھی تک
فسانہ گو ہے تری ابھی تک حدیث یوناں کی خوں چکانی
ہے تیری الفت کے راگ پر موج رود گنگا کو وجد اب تک
تری محبت کی آگ میں جل رہا ہے صحرائے نجد اب تک
جمال زہرہ ترے ملائک فریب جلووں کی اک نشانی
تری نگاہوں کے سحر سے گل فشاں ہے شعر و ادب کی دنیا
ترے تبسم کے کیف سے ہے یہ غم کی دنیا طرب کی دنیا
ترے لبوں کی مٹھاس سے شکریں ہے زہراب زندگانی
ترا تبسم کلی کلی میں ترا ترنم چمن چمن میں
رموز ہستی کے پیچ و خم تیرے گیسوؤں کی شکن شکن میں
کتاب تاریخ زندگی کے ورق ورق پر تری کہانی
جو تو نہ ہوتی تو یوں درخشندہ شمع بزم جہاں نہ ہوتی
وجود ارض و سما نہ ہوتا نمود کون و مکاں نہ ہوتی
بشر کی محدودیت کی خاطر ترستی عالم کی بیکرانی
نظم
عورت
مجید امجد