ایک بوسے کی طلب میں
جسم کبڑے ہو گئے
زندگی پانی ہوئی
آسماں سے کہکشاؤں کی بہار
آگ برساتی رہی
زندگی فٹ پاتھ پر
ایک روٹی کی طلب میں
ہاتھ پھیلاتی رہی
قطرہ قطرہ بے بسی تیزاب سی
جسم پگھلاتی رہی
ردی چنواتی رہی
نیٹی جیٹی پر کھڑی خلق خدا
ہنستی رہی
اور خدا خاموش تھا

نظم
اور خدا خاموش تھا
فہیم شناس کاظمی