EN हिंदी
اوج بن عنق | شیح شیری
auj-bin-unuq

نظم

اوج بن عنق

عبد الاحد ساز

;

شہر کی سب سے بڑی ہوٹل کی چھت پر
اس کا سر منڈلا رہا تھا

اور ساحل کے قریب
سرد اور محفوظ تہہ خانے کی تہہ کو

پیر اس کا چھو رہا تھا
ہائے وہ کتنا بڑا تھا!

اس کے دائیں ہاتھ میں جکڑے ہوئے تھے
کارخانے کمپنیاں بازار بینک

اور بائیں ہاتھ پر اس کے دھرے تھے
بار تھیٹر ہوٹلیں جوئے کے اڈے قحبہ خانے

سرنگوں اس کے انگوٹھوں کے اشاروں پر سیاست کی مشینوں کے بٹن
آہنی شانوں پر اس کے

بے زمیں بے آشیاں کالے پرندے جھولتے تھے
دم نچا کر پر پھلا کر

ہر گھڑی اس کو ہوا کا رخ بتاتے
اس کی سانسوں کی سفارش کی فضا میں جی رہے تھے

ناف اس کی مرکز ثقل زمانہ
پیٹ اس کا، پیٹ بھرنے کے وسائل کا خزانہ

وہ سڑک سے دفتروں سے اور گھروں سے
رینگتے بونے اٹھاتا

اپنی کہنی اور کلائی پر چلاتا
حسب منشا ذائقے کے طور پر ان کو چباتا جا رہا تھا

اس کا سایہ چار جانب شہر پر چھایا ہوا تھا
ہائے وہ کتنا بڑا تھا!

جان لیکن اس قوی ہیکل کی اس کے گردن و سر میں نہ تھی
جان تھی ٹخنوں میں اس کی

اس کے ٹخنے
سرد اور محفوظ تہہ خانے کی تہہ سے تھوڑا اوپر

دور تک پھیلے ہوئے بے روح ساحل پر عیاں تھے
اور وہیں اک دل زدہ بیزار موسیٰؔ

شہر کی سب سے بڑی ہوٹل کی چھت کو چھو نہ سکنے سے خفیف
نا بلد ٹخنوں کی کمزوری سے دیو عصر کی

اپنے امکاں اور ارادے کے عصا کی ضرب سے نا آشنا
نیم مردہ سرد بے حس ریت پر سویا ہوا تھا