میرا غم معتبر تھا
تکلف کی قبا نوچ کر جس نے
معصوم رنگ آتشیں بھرا تھا
تخلیق کے بند جذبوں کو
اخلاق کے ہاتھوں پر دھرا تھا
زندگی جس کے لئے
دار تھی
کوئے دل دار بھی
روح کی تفسیر بھی
رنگ حنا کی تنویر بھی
برداشت جس نے کی
آرزوؤں کی تضحیک بھی
مقدس جذبات کی تذلیل بھی
لبوں پر جس کے
کتنے اعتراضات تھے
نہاں جس کے دل میں
کتنے اعتراضات تھے
کچھ سطور
کچھ سطور کے درمیاں بھی تھا
کہیں تحریک
کہیں ٹھہراؤ کا سماں بھی تھا
کہیں خواب
کہیں خوابوں کا صورت گر بھی تھا
ہم اور تم جسے نہ جان سکے
اس کے خوابوں کو نہ پہچان سکے
نظم
اطہرؔ نفیس کے لئے
نور پرکار