تری نرم لہروں پہ رکھے دیے
اپنے باقی کے ہم راہ گم ہو چکے ہیں
دعاؤں، تمناؤں، خوابوں کا موسم
اذیت کے کیچڑ میں لتھڑا پڑا ہے
خطوں کے لفافے
حروف و معنی کے رنگوں سے
خالی پڑے ہیں
کناروں سے ڈالی گئی
درخت کی سرخ رو سازشی پتیاں
راستوں کے نشان کھو چکی ہیں
مگر۔۔۔
اگلے دن کے حسیں خواب۔۔۔
عریضے کی ڈالی
ابھی تک کہیں کانپتی ہے
نظم
عریضے کی ڈالی
ثروت زہرا