میں اپنے گھاؤ گن رہا ہوں
دور تتلیوں کے ریشمی پروں کے نیلے پیلے رنگ
اڑ رہے ہیں ہر طرف
فرشتے آسمان سے اتر رہے ہیں صف بہ صف
میں اپنے گھاؤ گن رہا ہوں
آنسوؤں کی اوس میں نہا کے بھولے بسرے خواب آ گئے
خون کا دباؤ اور کم ہوا
نحیف جسم پر کسی کے ناخنوں کے آڑے ترچھے نقش
جگمگا اٹھے
لبوں پہ لکنتوں کی برف جم گئی
طویل ہچکیوں کا ایک سلسلہ
فضا میں ہے
لہو کی بو ہوا میں ہے
نظم
اپنی یاد میں
شہریار