گئے برسوں اک حاصل کیا!
فقط اک موم بتی تین سو پینسٹھ دنوں میں
کیک کے زینے پہ چڑھتی ہے
ذرا سی پھونک پر ہم راہیوں کے ساتھ بجھتی ہے
دھواں چکرا کے روشن دان سے باہر نکلتا ہے
چھری کی دھار سے کتنے برس کاٹوں!
ہوا کا آشنا چہرہ مری آنکھوں میں رہتا ہے
گئے لمحوں کو دہراتی ہوا طرز محبت ہے
وہ آئے تو نئے لمحوں کی رسی تھام کر چل دوں
کہیں اندر رکی پھونکیں لبوں تک آئیں
تو یہ بتیاں گل ہوں
ابھی کل کے دریچے کھل نہیں پائے
مناظر دھند میں ہیں
آنسوؤں سے دھل نہیں پائے
نظم
اپنی سالگرہ پر
تابش کمال