جب تک چند لٹیرے اس دھرتی کو گھیرے ہیں
اپنی جنگ رہے گی
اہل ہوس نے جب تک اپنے دام بکھیرے ہیں
اپنی جنگ رہے گی
مغرب کے چہرے پر یارو اپنے خون کی لالی ہے
لیکن اب اس کے سورج کی ناؤ ڈوبنے والی ہے
مشرق کی تقدیر میں جب تک غم کے اندھیرے ہیں
اپنی جنگ رہے گی
ظلم کہیں بھی ہو ہم اس کا سر خم کرتے جائیں گے
محلوں میں اب اپنے لہو کے دئے نہ جلنے پائیں گے
کٹیاؤں سے جب تک صبحوں نے منہ پھیرے ہیں
اپنی جنگ رہے گی
جان لیا اے اہل کرم تم ٹولی ہو عیاروں کی
دست نگر کیوں بن کے رہے یہ بستی ہے خودداروں کی
ڈوبے ہوئے دکھ درد میں جب تک سانجھ سویرے ہیں
اپنی جنگ رہے گی
نظم
اپنی جنگ رہے گی
حبیب جالب