یہ خواہش تو
ہمارے شہر کے چڑیا گھروں کے شیر بھی شاید نہیں کرتے
کہ ساتھی شیر ان کو دیکھنے آئیں
ٹکٹ لے کر تماشے کی طرح
تماشا بن کے یہ جینے کی مجبوری
کہیں شرمندگی کی شکل میں منہ پر چھپی رہتی ہیں ان کے
مگر انسان؟
اس کا بس نہیں چلتا
کہ سر کے بل کھڑے ہو کر توجہ کھینچ لے سب کی
وہی انساں
جو خود کو اشرف و افضل سمجھتا ہے
اگر ممکن ہو تو
اپنے تماشے کے ٹکٹ
خود اپنے ہاتھوں دوسروں کو بیچ سکتا ہے
نظم
اپنے تماشے کا ٹکٹ
شارق کیفی