سفید کبوتروں سے آج سارا آکاش خالی ہے
دھوپ ڈری ہوئی فاختہ سی لگتی ہے
منڈیروں پہ بیٹھی ہوئی زرد ہے
کانپ کانپ اٹھتی ہے ہوا آدمی کی طرح
کرفیو سے بھرے ہوئے شہر کی سڑکوں پہ گھوڑوں کی وحشی ٹاپیں
آگ اڑاتی ہیں
مکان جلتے ہیں مرے تمہارے
اندر ہمارے دھواں دھواں سا کچھ رہ رہ اٹھتا ہے
دور میں اور پاس میں بھی زوروں کے دھماکے ہوتے ہیں
گولیاں تابڑ توڑ سنسناتی ہیں
ہڈیوں میں اتری جاتی ہیں
دن لہو خاک میں لپٹا ہوا گزرتا ہے
شام بھی لہولہان چھپکلی کی طرح سہمی ہوئی چپ چاپ اداس اداس
دھیرے سے ندی میں ڈوبتی ہے
پھر سیاہ ہوتے ہوئے پیڑوں پہ ڈھیر سارے گدھ
اپنی پوری طاقت سے اپنے پر پھڑپھڑاتے ہیں
سناٹا کائنات میں اور بھی گہراتا ہے
کچھ دھواں دھواں سا اندر اندر میرے تمہارے اور بھی بڑھ جاتا ہے
نظم
اپنے شہر میں فساد
اختر یوسف