اے مرے سن و سال کے حاصل
میرے آنگن کے نو دمیدہ گلاب
میرے معصوم خواب کے ہم شکل
میری مریم کے سایۂ شاداب
صبح تخلیق کا سلام تجھے
زندگی تجھ کو کہتی ہے آداب
اے مقدس زمیں کے شعلۂ نو
تو فروزاں ہو ان فضاؤں میں
میرے سینے کی جو امانت ہیں
جو مری نارسا دعاؤں میں
اس طرح مسکراتی ہے جیسے
نغمگی دور کی صداؤں میں
مجھ کو اجداد سے وراثت میں
وہ خرابے ملے کہ جن میں رہا
عمر بھر پائمال و خاک بسر
میرا حصہ رہا غم فردا
مجھ کو میرے لہو میں نہلا کر
جس نے قید حیات میں رکھا
اے مری روح فن کے عکس جمیل
تجھ کو میری سی زندگی نہ ملے
جو نہ میں ہو سکا وہ تو ہو جائے
کاش تو میرا جانشیں نہ بنے
میں تصور میں بھی جہاں نہ گیا
ان دیاروں میں تیرا نام چلے
نظم
اپنے بچے کے نام
خلیلؔ الرحمن اعظمی