EN हिंदी
اپاہج دنوں کی ندامت | شیح شیری
apahij dinon ki nadamat

نظم

اپاہج دنوں کی ندامت

جاوید انور

;

کھڑکیاں کھول دو
ضبط کی کھڑکیاں کھول دو

میں کھلوں جون کی دوپہر میں
دسمبر کی شب میں

سبھی موسموں کے کٹہرے میں اپنی نفی کا میں اثبات بن کر کھلوں
خواہشوں

نیند کی جنگلی جھاڑیوں
اپنے ہی خون کی دلدلوں میں کھلوں

بھائیوں کی پھٹی آستینوں میں
بہنوں کے سجدوں میں

ماں باپ کے بے زباں درد میں ادھ جلے سگرٹوں کا تماشہ بنوں
ہر نئی صبح کے بس اسٹاپوں پہ ٹھہری ہوئی لڑکیوں کی کتابوں میں

مصلوب ہونے چلوں
میں اپاہج دنوں کی ندامت بنوں

کھڑکیاں کھول دو
چھوڑ دو راستے

شہر بے خواب میں گھومنے دو مجھے
صبح سے شام تک شام سے صبح تک

اس اندھیرے کی اک اک کرن چومنے دو مجھے
جس میں بیزار لمحوں کی سازش ہوئی

اور دہلوں سے نہلے بڑے ہو گئے
جس میں بے نور کرنوں کی بارش ہوئی

بحر شب زاد میں جو سفینے اتارے بھنور بن گئے
خواب میں خواب کے پھول کھلنے لگے کھڑکیاں کھول دو

جاگنے دو مجھے