EN हिंदी
انجام | شیح شیری
anjam

نظم

انجام

منموہن تلخ

;

وہی چہرے نظر کے سامنے ہیں
جنہیں پہچاننا

مشکل نہیں ہے
یہ میرے سامنے برسوں رہے ہیں

مگر!
اب کس لیے

یہ میرے سر میں
مسلسل درد سا رہنے لگا ہے

(انہیں ہر ایک پل تک تک کے شاید)
(مری آنکھیں ہی شاید بجھ رہی ہیں)

میں ان آنکھوں سے
اب کتنا دکھی ہوں

وہی چہرے
میں جن سے آشنا ہوں

مجھے آنکھوں پہ کتنا زور دے کر
انہیں پہچاننا پڑتا ہے

آخر!
یہ برقی رو سی کیسے چھوڑتے ہیں

تھکن کی اور اکتاہٹ کی
آخر!

وہ باتیں ختم کیسے ہو گئی ہیں
وہ آوازیں!

کہاں ہیں آج؟
آخر!

وہ ان آنکھوں میں کیسے کھو گئی ہیں
کہ اندھے بھی

تو اک دوجے کو
آخر!

بغیر آنکھوں ہی کے پہچانتے ہیں
تو کیا؟

آواز آنکھوں سے بڑی ہے؟
(یہ ہم پہ کیسی بپتا آ پڑی ہے؟)

ہماری نسل!
کتنی زندہ دل تھی

ہماری نسل کا انجام
آخر!

ہوا ہے کس لیے اتنا بھیانک
کہ تک تک کر کسی کو اوب جانا

نظر کے ساتھ خود بھی ڈوب جانا