اندھیارا اور خاموشی مل جاتے ہیں
درد بہت بڑھ جاتا ہے
دنیا پر وحشت چھا جاتی ہے
کہنے کو باتیں ہیں با معنی بھی بے معنی بھی
جب بات کا مطلب اڑ جائے
الفاظ پریشاں ہو جائیں
کیا جانے کیا کہنا کس سے کہنا کیا ہے
پتھر پتھر ٹھوکر لگتی ہے
رشتہ غائب ہو جاتا ہے
اپنے سے یا اور کسی سے
بندھن کیسا؟
گمبھیر اداسی چھا جاتی ہے
تنہا تنہا سب کی راہیں
اپنی اپنی سب کی بولی
محرومی ہر صورت سب کی محرومی ہے
ساون کا منظر
ہر جانب ہرا ہرا ہے

نظم
اندھیارا
صدیق کلیم