اونچی نیچی دیواروں میں گھرے ہوئے
تم اتنے ہراساں اتنے تنہا
پہلے کب تک
جاؤ پھر سے کھاٹ پہ لیٹو
ٹکٹکی باندھ کے اس کو دیکھو
کتنا بے بس کتنا بھیانک کتنا تنہا
ڈولتا پیا کھوٹا سکہ اندھی کالی رات کا دھبہ
تم نے اس دھبے کو اب تک پیشانی کی شوبھا سمجھا
اور اب خالی ترن بن کر چیخ رہے ہو
بولو اپنے ہونٹوں پر کوئی شبد سجاؤ
منتر جاپو ہاتھ اٹھا کر پڑھو دعائیں
چہرہ دھو کر سیدھے ہاتھ کی انگلی کے یاقوت میں جھانکو
بولو تم نے کیا دیکھا ہے
صدیوں تم نے اس کو چاہا
اس کی سیمیں انگلی تھامی چلنا سیکھا
اس کے ٹھنڈے نورانی چھتنار کے نیچے
گھاس پہ لیٹے
دودھ بھری کرنوں میں نہائے
پیار بھری آنکھوں میں جھانکا
اور اب کیا ہے
اک نقطہ اک ڈولتا پیا اندھی کالی رات کا دھبہ
نصیب کا پیکر بے رنگی کا مظہر تنہا
اس کو اب تم کیا دیکھو گے
دیکھا بھی تو
اپنے ہی اندر جھانکو گے
نظم
اندھی کالی رات کا دھبہ
وزیر آغا