اندھیرا تھا
اندھیرا لال قلعہ جس میں اک کالا ہیولیٰ تھا
ہزاروں قمقموں کی روشنی تھی دائرہ در دائرہ پھر بھی
اندھیرا تھا
نگل ڈالا تھا جس نے لال قلعے کو گھنا گاڑھا اندھیرا تھا
ہزاروں قمقموں کی روشنی میں پاس کی چیزیں ہی پس منظر
اندھیرا جن کا پس منظر
سڑک پر ہر سڑک پر روشنی کی دوڑ جاری تھی
اندھیرے میں غبار و گرد کے اڑتے ہوئے ذروں کو روشن کر رہے تھے
بہم منقطع کرتے روشنی کے دائرے
اندھیرا کٹتی پھٹتی دوڑتی اڑتی بکھرتی روشنی کو پی رہا تھا
اندھیرے کا مگرمچھ
اندھیرے کے سمندر میں
اجالے کی چمکتی مچھلیوں کو اپنے دانتوں میں دبائے تیرتا تھا
اندھیرے کا مگرمچھ لال قلعہ پر
بڑی زہریلی سانسیں چھوڑتا تھا
نظر آتا نہیں تھا لال قلعہ
کہ اس کے برج کنگورے در و دیوار اک کالا ہیولیٰ بن گئے تھے
ہیولیٰ بن گیا تھا لال قلعہ
مگر اس کے وہاں ہونے میں کوئی شک نہیں تھا
اندھیرا تھا
اندھیرے کے سمندر کی گپھا میں لال قلعہ تھا
نظم
اندھیرے میں سوچنے کی مشق
عمیق حنفی