دفعتاً ایسا لگا
میرے سارے جسم پر آنکھیں ہی آنکھیں ہیں
مجسم آنکھ ہوں میں
میں نے دیکھا
اس نے تھوڑی دیر کھڑکی پر ٹھہر کر
اپنی آنکھیں چمچمائیں
اور پھر جالی کو بوسہ دے کے وہ
آگے بڑھی
راستے میں کانچ کی دیوار تھی
(اور سچ یہ ہے کہ آخر وقت تک قائم رہی وہ)
پھر بھی جانے کس طرح
پلکیں جھپکتے ہی وہ اندر آ گئی
اندر آ کر
اس نے سینے میں مرے خنجر اتارا
دیکھ لو
اب تک ابلتا ہے مرے سینے سے
چاندی کا لہو
نظم
اندھے آئنے کا قتل
مظفر حنفی