EN हिंदी
اندھے آئنے کا قتل | شیح شیری
andhe aaine ka qatl

نظم

اندھے آئنے کا قتل

مظفر حنفی

;

دفعتاً ایسا لگا
میرے سارے جسم پر آنکھیں ہی آنکھیں ہیں

مجسم آنکھ ہوں میں
میں نے دیکھا

اس نے تھوڑی دیر کھڑکی پر ٹھہر کر
اپنی آنکھیں چمچمائیں

اور پھر جالی کو بوسہ دے کے وہ
آگے بڑھی

راستے میں کانچ کی دیوار تھی
(اور سچ یہ ہے کہ آخر وقت تک قائم رہی وہ)

پھر بھی جانے کس طرح
پلکیں جھپکتے ہی وہ اندر آ گئی

اندر آ کر
اس نے سینے میں مرے خنجر اتارا

دیکھ لو
اب تک ابلتا ہے مرے سینے سے

چاندی کا لہو