EN हिंदी
اندھا | شیح شیری
andha

نظم

اندھا

میکش اکبرآبادی

;

سنتا ہے حسن شمس و قمر دیکھتا نہیں
یعنی نظام شام و سحر دیکھتا نہیں

اس کے بھی پیرہن پہ گناہوں کے داغ ہیں
دنیا کو چاہتا ہے مگر دیکھتا نہیں

اس کو بھی ہیں نصیب محبت کی لذتیں
دل تھامتا ہے تیر نظر دیکھتا نہیں

اس کے بھی دل میں آگ بھڑکتی ہے عشق کی
جلتا ہے اور رقص شرر دیکھتا نہیں

اس کے بھی سر نے پایا ہے احساس بندگی
سجدہ میں گر تو جاتا ہے در دیکھتا نہیں

اس کو سنبھال لیتی ہیں ہر بار ٹھوکریں
چلتا ہے اور راہ گزر دیکھتا نہیں

باتوں سے تاڑ لیتا ہے باطن کی حالتیں
ملتا ہے اور روئے بشر دیکھتا نہیں

ہنستا ہے صرف اپنے لئے غیر پر نہیں
روتا ہے اور دامن تر دیکھتا نہیں

معلوم ہے تمول و غربت کی کشمکش
آنکھوں سے امتیاز نظر دیکھتا نہیں

اس کو سکون چاہیے جینے کے واسطے
رہتا ہے اور اپنا ہی گھر دیکھتا نہیں