EN हिंदी
انجانا دکھ | شیح شیری
an-jaana dukh

نظم

انجانا دکھ

ظہور نظر

;

ہرے بھرے لہراتے پتوں والا پیڑ
اندر سے کس درجہ بودا کتنا کھوکھلا ہو سکتا ہے

مجھ سے پوچھو
میں اک ایسے ہی چھتنار کے نیچے بیٹھا

اس کی چھاؤں سے اپنے سفر کی
دھوپ کا دکھڑا پھول رہا تھا

آنے والے وقت کی ٹھنڈی گیلی مٹی رول رہا تھا
اپنے آپ سے بول رہا تھا

میں بھی کتنا خوش قسمت ہوں
جیون کی سنسان ڈگر پر

میرے کتنے یار کھڑے ہیں پیڑ کی صورت
اتنے میں اک جھونکا آیا

یہ جھونکا چاندی کی کان کے اندر سے ہو کر آیا تھا
ایک ہی پل میں

پیڑ کی چھال نے رنگت بدلی
ایک ہی پل میں

ہر پتے کی شکل ہوئی مٹیالی گدلی
شاں شاں کرتی شاخوں میں اک زہریلی سرگوشی جاگی

چھاؤں چھٹ کر پیڑ کے تن کی جانب بھاگی
دل یہ منظر دیکھ کے سہما کانپا رویا

چاروں اور سے اٹھتی اک انجانے دکھ کی دھول میں کھویا
زہر سا اک رگ رگ میں سمایا

اتنے میں اک اور جھومتا جھونکا آیا
یہ جھونکا خود غرضی کے کہسار پہ منڈلا کر آیا تھا

بس اتنا ہی یاد ہے مجھ کو
کیسے اور کب پیڑ گرا یہ پیڑ سے پوچھو

مجھے نکالو
اس بودے اور کھوکھلے پیڑ کے نیچے دب کر

میرے ساتھ مرا احساس بھی مر جائے گا
جو بھی یہ منظر دیکھے گا ڈر جائے گا

دیکھنے والوں کو اس خوف سے اس صدمے اس غم سے بچا لو
مجھے نکالو

آئندہ میں چھتنار کو اپنا یار نہیں سمجھوں گا
کبھی کبھی مل جانے والی چھاؤں کو پیار نہیں سمجھوں گا