EN हिंदी
ایمبولنس | شیح شیری
ambulance

نظم

ایمبولنس

بلراج کومل

;

جو مجھ کو لائی تھی سکون گاہ میں
وہ ایک تھی

سپید، صرف ایک، اس کے پہلوؤں، جبین اور پشت پر
صلیب کے نشان تھے

میں چور چور اک عظیم گھاؤ تھا
وہ مجھ کو دست مہرباں میں سونپ کر

چلی گئی تو میں غنودگی کی بے کراں مہیب دھند میں بھٹک گیا
ہر ایک رہگزر پہ گاڑیوں بسوں کا کارواں امنڈ پڑا

عجیب انقلاب تھا مری نظر کے سامنے
وہ ایک پل میں سب سپید ہو گئیں

سپید سب سپید، ان کے پہلوؤں، جبین اور پشت پر
صلیب کے نشان دفعتاً ابھر کے آ گئے

الم نصیب ان کے بے اماں مکیں
مرے ہی ہم نفس وفا شعار وہ عزیز تھے

جو سادگی سے کوئی مشتہر فریب کھا گئے
کسی مہیب جنگ بھوک قحط یا وبا کی زد میں آ گئے