مرکز علم و ہنر میکدۂ سوز و ساز
سجدۂ شوق سے آباد ہے رندوں کا حرم
جام در جام ہے صہبائے جنون حکمت
دیکھنا ہو تو کوئی دیکھ لے ساقی کا کرم
مے گساری کا یہ انداز نہ دیکھا ہم نے
سب کے دکھ درد کا احساس نشے کا عالم
ایک ہی آگ سے ہر روح جلا پاتی ہے
ہو گئے ایک ہی شعلے میں شرارے مدغم
اپنے ہر دور کی تحریک کا آئینہ لئے
پھر اٹھاتا ہے علی گڑھ نئی دنیا میں قدم
راہ دشوار میں اک قافلہ نکہت و نور
سنگ خارا کی چٹانوں کے مقابل ہے کھڑا
ٹوٹ جائے گا بہت جلد طلسم امروز
نور فردا کے تبسم میں بدل جائے گا
نظم
علی گڑھ یونیورسٹی
انجم اعظمی