ہم نشیں رات کی مغموم خموشی میں مجھے
دور کچھ دھیمی سی نغموں کی صدا آتی ہے
جیسے جاتی ہوئی افسردہ جوانی کی پکار
جس کو سن سن کے مری روح لرز جاتی ہے
جیسے گھٹتی ہوئی موجوں کا اترتا ہوا شور
مطربہ جیسے کوئی دور نکل جاتی ہے
یا ہواؤں کا ترنم کسی ویرانے میں
جیسے تنہائی میں دوشیزہ کوئی گاتی ہے
میں بہت غور سے نغمات سنا کرتا ہوں
سچ تو یہ ہے کہ مری جان پہ بن جاتی ہے
بار بار اٹھ کے میں جاتا ہوں صداؤں کی طرف
لیکن اک شے ہے جو واپس مجھے لے آتی ہے
چونک اٹھتا ہوں جب اس خواب سے حیراں ہو کر
پھر مجھے دوسری دنیا ہی نظر آتی ہے
آہ، وہ بھوک کے مارے ہوئے افراد ہنسیں
جن کی صورت پہ قناعت بھی ترس کھاتی ہے
جیسے اجڑی ہوئی محفل کے کچھ افسردہ چراغ
روشنی میں جنہیں ہر گام پہ ٹھکراتی ہے
آہ وہ حضرت انسان ہی کا درد و ستم
جس کا اظہار بھی کرتے ہوئے شرم آتی ہے
وہ ترانے جو سنا کرتا ہوں تنہائی میں
ان ترانوں میں مجھے بوئے وفا آتی ہے
گاؤں گا نغمے وہ تعمیر محبت کے لیے
مے کدہ چھوڑ دیا جن کی اشاعت کے لیے
نظم
علی گڑھ چھوڑنے کے بعد
شکیل بدایونی