علی بابا
یہ عجلت ہمتوں کو پست کرتی ہے
محبت راستے میں موت کو تجویز کرتی ہے
ہوس تیری گھنے جنگل سے چوروں کو
مری بستی میں لے آئی
وہ چالیس چور.....
بستی کے گلی کوچوں میں اب مقتل سجاتے ہیں
علی بابا
خزانہ پانے کی عجلت
ترے ماضی کی محرومی کا
ابتر شاخسانہ ہے
یہ تیری بد نصیبی سے بھی بد تر اک فسانہ ہے
نہیں ہے کوئی مرجینا، تری اچھی کنیزوں میں
جو بستی کو بچا لیتی
سلامت ہے نہ تیرا گھر
نہ میرا دل
نہ اب دربار شاہانہ؟
تجھے کیا ہے؟
ہوس تیری رہے باقی
یہ بستی آگ کی تصویر ہو جائے
اگر یہ راکھ کا ہی ڈھیر ہو جائے
تجھے کیا ہے؟
کنیزوں خاصہ داروں اور غلاموں سے
تجھے فرصت نہیں ملتی
وہی بغداد جس کے سب گلی کوچے
کبھی تھے مہ وشوں کے
گل رخوں کے آئینہ خانے
ستارے آسماں سے جھک کے جن کو روز تکتے تھے
جو اوراق مصور تھے
وہاں پر دھول اڑتی ہے
ہر اک جانب اجل کی حکمرانی ہے
زمیں پر آگ جلتی ہے
زمیں پر آگ جلتی ہے
علی بابا
خزانہ پانے کی مسرت سے زیادہ اب
اذیت ہے
خزانہ پانے کی عجلت
ہوس تیری
گھنے جنگل سے چوروں کو مری بستی میں لے آئی
کوئی سم سم
کوئی بھی اسم اعظم اب
ہماری مشکلیں آساں نہیں کرتا
کوئی درماں نہیں کرتا
نظم
علی بابا کوئی سم سم
فہیم شناس کاظمی