جاناں! کیا یہ ہو سکتا ہے
آج کی شام کہیں نہیں جائیں
شور مچانے والے فیتے
آوازوں سے بھرے توے
سب تھوڑی دیر کو چپ ہو جائیں
جاناں! کیا یہ ہو سکتا ہے
اس پیاری مشروب کے پیمانے بھی نہ چھلکیں
جن کے بل بوتے پہ ہماری خوش اخلاقی
عام ہوئی ہے
اور نہ موضوعات کے لاوے منہ سے ابلیں
ایسے لوگ کہ جن کے چہرے بہت بڑے اور دل چھوٹے ہیں
آج ہمیں صورت نہ دکھائیں
تھوڑی دیر کو تنہائی کی ہلکی خنکی بسی رہے
لوگ گھروں میں اور بوتل الماری ہی میں سجی رہے
ہم دونوں اس کمرے میں ہوں
جس کی دیواروں پہ ہمارے سکھ کے بندھن
تصویروں کی شکل میں آویزاں رہتے ہیں
جس میں رکھے کاٹھ کے گھوڑے
کوٹ کے ہاتھی
سب ہم کو تکتے رہتے ہیں
جس میں بیٹھی کانچ کی چڑیاں
ہم کو دیکھ کے ڈر سی گئی ہیں
جس میں رکھی کئی کتابیں
ہم سے روٹھ کے مر سی گئی ہیں
ہم دونوں تنہا ہوں
تھوڑی دیر کو گم سم سے بیٹھیں
پھر رفتہ رفتہ بات چیت کے
چھوٹے چھوٹے پھول کھلیں
قربت کی گرمی سے پشیمانی کے آنسو
دیے کی طرح سے جل اٹھیں
جاناں کیا یہ ہو سکتا ہے
اب بھی میرا دل کہتا ہے
شاید ایسا ہو سکتا ہے
نظم
''الف'' اور ب'' کے نام
زہرا نگاہ