EN हिंदी
المیہ | شیح شیری
alamiya

نظم

المیہ

حمیرا راحتؔ

;

دریچے میں کھڑی بارش کو
سڑکوں پر برستے دیکھتی ہوں

سوچتی ہوں
دکھ کو اپنے نام کیا دوں میں

تمناؤں کو گروی رکھ کے
خوابوں کے سبھی دربند کر کے

کتنی مشکل سے
چھڑا کر اپنا دامن

چھت اور آنگن کی تمنا سے
فقط اک گھر کی خواہش میں

یہ زنداں مول لے کر
اس پہ اپنے نام کی تختی لگائی ہے

بس اک خواہش ہے جو
ساون رتوں میں

دل بہت بے چین رکھتی ہے
کہ میں ساون کی

ٹھنڈی نرم بوچھاروں کا
ریشم لمس

اپنے تن بدن پر اوڑھ لیتی
ہے مگر کچھ یوں

میں بارش دیکھ تو سکتی ہوں
اس کو چھو نہیں سکتی