ابھی سے ان کے لیے اتنی بے قرار نہ ہو
کیا ہے مجھ کو بہت بے قرار چھیڑا ہے
تمہارے شعر سنا کر تمہارے سر کی قسم
سہیلیوں نے مجھے بار بار چھیڑا ہے
کشش نہیں ہے تمہارے بنا بہاروں میں
یہ چھت یہ چاند ستارے اداس لگتے ہیں
چمن کا رنگ نسیم سحر گلاب کے پھول
نہیں ہو تم تو یہ سارے اداس لگتے ہیں
خبر سنی ہے کبھی جب تمہارے آنے کی
میں آئنے میں دلہن بن کے مسکرائی ہوں
گئی ہوں دامن دل کو خوشی سے بھرنے مگر
جہان بھر کی اداسی سمیٹ لائی ہوں
کہیں پہ گائے گئے ہیں جو گیت بابل کے
تو اجنبی سے خیالوں میں کھو گئی ہوں میں
تمہاری یاد کے سینے پہ بارہا آزرؔ
تصورات کا سر رکھ کے سو گئی ہوں میں
تمہیں یقین نہ ہوگا اکیلے کمرے میں
میں اپنی جان سے پیارے خطوط پڑھتی ہوں
تمام رات تمہیں یاد کرتی رہتی ہوں
تمام رات تمہارے خطوط پڑھتی ہوں
تم آ بھی جاؤ کہ گزرے ہوئے دنوں کی طرح
سلگ نہ جائیں کہیں حسرتوں کی تصویریں
اداس پا کے نہ چھیڑیں سہیلیاں مجھ کو
بدل بھی دو مری تنہائیوں کی تقدیریں
نظم
اکیلے کمرے میں
کفیل آزر امروہوی