EN हिंदी
اجنبی راہگزر | شیح شیری
ajnabi rah-guzar

نظم

اجنبی راہگزر

صدیق کلیم

;

اجنبی راہگزر سوچتی ہے
کوئی دروازہ کھلے

ہر طرف درد کے لمبے سائے
راستے پھیل گئے دور گئے

دھڑکنیں تیز ہوئیں اور بھی تیز
اجنبی راہگزر سوچتی ہے

کوئی محجوب نظارہ ابھرے
اور مجبور فقیروں کی طرح

ہر قدم چلتی ہے دستک دستک
ہر نفس ایک نئی راہ ہر اک سمت میں بھاگی لیکن

جس طرح وصل کا ہر لمحہ جدائی کا سفر
اجنبی راہ گزر سوچتی ہے

شاید اب ایسا مقام آ جائے
ہر قدم آپ ہر اک راہگزر ہو منزل

خود بہ خود درد کا ہر لمحہ ہو لطف
اجنبی راہگزر سوچتی ہے

در بدر خاک بسر سوچتی ہے