EN हिंदी
اجنبی فرمائش | شیح شیری
ajnabi farmaish

نظم

اجنبی فرمائش

خورشید اکبر

;

اجنبی تجھ سے تعلق کا صلہ خوب ہے یہ
تیری خواہش ہے کہ ہر روز نئی نظم لکھوں تیرے نام

میری کوشش بھی عجب ہے لیکن
روز تازہ نئے جذبات کہاں سے لاؤں

کورے الفاظ کی سوغات کہاں سے لاؤں
خشک آنکھوں کے کٹوروں سے میں برسات کہاں سے لاؤں

اجنبی تو ہی بتا نسخۂ نایاب کوئی
اجنبی مجھ کو دکھا خطۂ شاداب کوئی

برگ آوارہ کی صورت ہوں ہوا کی زد پر
میں کہ رقصا ہوں ابھی گرم بگولوں کے ساتھ

اجنبی تو بھی مرے رقص فلک رنگ میں شامل ہو جا
شاعری کیا ہے مری جان کا حاصل ہو جا

تو مرا جسم قبا تو مری روح کی پر نور غذا
شہد سے میٹھی مرے لب کی دعا

اجنبی کون ہے تو میرے سوا مجھ سے جدا