بیٹھے بیٹھے ریل کے ڈبے میں
ہوتی ہیں باتیں لوگوں سے
راستہ کاٹنے کے لئے
وقت بانٹنے کے لئے
منزل پر پہنچ کر
دھندلی یادیں بن کر
یہ لوگ چھوٹ جاتے ہیں
اسی ڈبے میں
زمین پر بکھرے ہوئے
مونگ پھلی کے چھلکوں کی مانند
مگر آج یہ
کیسے اجنبی شخص سے
ہوئی ملاقات سفر میں
کہ جس کا تصور
قلی کے سر پر دھرے سامان کی طرح
میرے ساتھ گھر چلا آیا؟
نظم
اجنبی
ؔآدتیہ پنت ناقد