EN हिंदी
عجیب قصہ ہے | شیح شیری
ajib qissa hai

نظم

عجیب قصہ ہے

جاوید اختر

;

عجیب قصہ ہے
جب یہ دنیا سمجھ رہی تھی

تم اپنی دنیا میں جی رہی ہو
میں اپنی دنیا میں جی رہا ہوں

تو ہم نے ساری نگاہوں سے دور
ایک دنیا بسائی تھی

جو کہ میری بھی تھی
تمہاری بھی تھی

جہاں فضاؤں میں
دونوں کے خواب جاگتے تھے

جہاں ہواؤں میں
دونوں کی سرگوشیاں گھلی تھیں

جہاں کے پھولوں میں
دونوں کی آرزو کے سب رنگ

کھل رہے تھے
جہاں پہ دونوں کی جرأتوں کے

ہزار چشمے ابل رہے تھے
نہ وسوسے تھے نہ رنج و غم تھے

سکون کا گہرا اک سمندر تھا
اور ہم تھے

عجیب قصہ ہے
ساری دنیا نے

جب یہ جانا
کہ ہم نے ساری نگاہوں سے دور

ایک دنیا بسائی ہے تو
ہر ایک ابرو نے جیسے ہم پر کمان تانی

تمام پیشانیوں پہ ابھریں
غم اور غصے کی گہری شکنیں

کسی کے لہجے سے تلخی چھلکی
کسی کی باتوں میں ترشی آئی

کسی نے چاہا
کہ کوئی دیوار ہی اٹھا دے

کسی نے چاہا
ہماری دنیا ہی وہ مٹا دے

مگر زمانے کو ہارنا تھا
زمانہ ہارا

یہ ساری دنیا کو ماننا ہی پڑا
ہمارے خیال کی ایک سی زمیں ہے

ہمارے خوابوں کا ایک جیسا ہی آسماں ہے
مگر پرانی یہ داستاں ہے

کہ ہم پہ دنیا
اب ایک عرصے سے مہرباں ہے

عجیب قصہ ہے
جب کہ دنیا نے

کب کا تسلیم کر لیا ہے
ہم ایک دنیا کے رہنے والے ہیں

سچ تو یہ ہے
تم اپنی دنیا میں جی رہی ہو

میں اپنی دنیا میں جی رہا ہوں!