مری آنکھوں کا ہر منظر
اداسی کا دریدہ پیرہن ہے
شہر کی گلیاں
خموشی کا کفن پہنے پڑی ہیں
چاندنی جیسے
کس کی آنکھ کا یرقان ہو
اور دور تک پھیلی چھتوں پر
لیٹنے والوں کے چہروں پر برستا ہو
چھتوں پر لیٹنے والوں کے چہرے زرد ہیں
ٹھنڈی ہوا کے ایک جھونکے کو ترستے ہیں
ادھر باہر بہت آہستگی سے خوف کی چادر
کسی نادیدہ طاقت نے درختوں پر بھی پھیلا دی
اداسی سے تراشیدہ درختوں کی ہر اک خواہش
کسی بارش کے قطرے میں مقید ہے
جو گرتا ہے نہ مٹتا ہے
اگر ہوتا مرے بس میں
تو میں بارش کا قطرہ بن کے گرتا
ہوا کا سرد جھونکا بن کے
ہر گھر میں اترتا
اور ان ویران آنکھوں کو
اداسی سے تراشیدہ درختوں کو خوشی دیتا
مگر میں خود اسی منظر کا حصہ ہوں
عجب سا ایک قصہ ہوں
نظم
عجب سا ایک قصہ
فیاض تحسین