عجب پانی ہے
عجب ملاح ہے
سوراخ سے بے فکر
آسن مار کے
کشتی کے اک کونے میں بیٹھا ہے
عجب پانی ہے
جو سوراخ سے داخل نہیں ہوتا
کوئی موج نہفتہ ہے
جو پیندے سے
کسی لکڑی کے تختے کی طرح چپکی ہے
کشتی چل رہی ہے
سرپھری لہروں کے جھولے میں
ابھی اوجھل ہے
جیسے ڈوبتی اب ڈوبتی ہے
جیسے بطن آب سے
جیسے تلاطم کی سیاہی سے
ابھی نکلی ہے
جیسے رات دن
بس ایک ہی عالم میں
کشتی چل رہی ہے
کیا عجب کشتی ہے
جس کے دم سے یہ پانی رواں ہے
اور اس ملاح کا دل نغمہ خواں ہے
کتنے ٹاپو راہ میں آئے
مگر ملاح
خشکی کی طرف کھنچتا نہیں
نظارۂ رقصندگی خواب میں
شامل نہیں ہوتا
عجب پانی ہے
جو سوراخ سے داخل نہیں ہوتا
نظم
عجب پانی ہے
رفیق سندیلوی