EN हिंदी
عجائب خانہ | شیح شیری
ajaib-KHana

نظم

عجائب خانہ

ثروت زہرا

;

مرا وجود
دیکھتے ہی دیکھتے

ایک عجائب خانے میں ڈھل رہا ہے
کہ میرے لا شعور نے

آثار قدیمہ کی نادر عنایتوں کو
چھپا کے مجھ سے

مجھ ہی میں جمع کر دیا ہے
یہاں کہیں کسی ریک میں

مرے حنوط شدہ حرف اور لمحے
پڑے ہوئے ہیں

جنہیں نہ جانے کون سا مسالہ لگا دیا گیا ہے
کہ مرے جسم کی حرارت سے بھی وہ

گل نہیں رہے ہیں
ان المایوں سے

مری ٹوٹی ہوئی چوڑیوں کے ساز کی
آواز آ رہی ہے

یہ دیکھو شیلف میں
میری بچپن کی گڑیا کا

ٹوٹا ہوا جسم سو رہا ہے
کہیں میری سنگھار میز کا آئینہ

بے رنگ ہو کر چٹخ گیا ہے
مگر اب بھی

میرے عذاب لمحوں کا
عکس دے رہا ہے

کہیں کسی سرمہ دانی میں
شاید کبھی میں نے اپنی آنکھ چھوڑ دی تھی

جو اس میں سے مجھے گھورتی ہے
اور میری زندگی

میرے زنگ آلود زیوروں میں
دب کے چیختی ہے

اور پائلوں کی آواز سے ڈر رہی ہے
ایک ٹوٹی ہوئی کنگھی سے

مرے بال الجھے ہوئے ہیں
اور کنارے پہ رکھی ہوئی

صراحی سے پیاس کی بو
رس رہی ہے

کسی گھڑیال کی ٹوٹی ہوئی سوئی
اک عذاب لمحے میں مرتعش ہے

اور قریب ہی
میرے جذبوں کے تالاب سے

باس اٹھ رہی ہے
اور تماش بین،

جوق در جوق میرے عجائب خانے کو
دیکھنے کو آ رہے ہیں

ان میں سے کوئی تماش بین
اس عجائب خانے کی

سانس لیتی ہوئی موت کو
تضحیک سے دیکھ کر

نظر انداز کرتا ہوا جا رہا ہے
اور کوئی عجائبات کا شوقین

ان تمام اشیاء پہ تحقیق کر کے
اپنا آپ ثابت کرنا چاہتا ہے

مگر ان کو دھول میں پڑی ہوئی
تاریخ کی الجھی ہوئی ڈور کا

کوئی سرا نہیں مل رہا ہے
اور میں کنارے پہ کھڑی ہوئی

اپنے اسی ایک سرے کے ملنے کی منتظر ہوں
کہ مرا وجود دیکھتے ہی دیکھتے

ایک عجائب خانے میں ڈھل چکا ہے