EN हिंदी
اے وقت ذرا تھم جا | شیح شیری
ai waqt zara tham ja

نظم

اے وقت ذرا تھم جا

امجد اسلام امجد

;

اک خواب کی آہٹ سے یوں گونج اٹھیں گلیاں
امبر پہ کھلے تارے باغوں میں ہنسیں کلیاں

ساگر کی خموشی میں اک موج نے کروٹ لی
اور چاند جھکا اس پر

پھر بام ہوئے روشن
کھڑکی کے کواڑوں پر سایہ سا کوئی لرزا

اور تیز ہوئی دھڑکن
پھر ٹوٹ گئی چوڑی، اجڑنے لگے منظر

اک دست حنائی کی دستک سے کھلا دل میں
اک رنگ کا دروازہ

خوشبو سی عجب مہکی
کوئل کی طرح کوئی بے نام تمنا سی

پھر دور کہیں چہکی
پھر دل کی صراحی میں اک پھول کھلا تازہ

جگنو بھی چلے آئے سن شام کا آوازہ
اور بھونرے ہنسے مل کر

ہر ایک ستارے کی آنکھوں میں اشارے ہیں
اس شخص کے آنے کے

اے وقت ذرا تھم جا
آثار یہ سارے ہیں اس شخص کے آنے کے