تجھے کچھ اس کی خبر بھی ہے اے نگار وطن
ترے لئے کوئی سینہ فگار ہے اب بھی
اٹھا چکا ہوں فریب وفا کے داغ مگر
شکستہ دل کو ترا اعتبار ہے اب بھی
ہزاروں کاہکشاں نے بچھائے جال مگر
مری نظر میں تری رہ گزار ہے اب بھی
وہ ایک قطرہ جو ٹپکا تھا تیرے دامن پر
وہ ایک نقش مرا شاہکار ہے اب بھی
وہ ایک لمحہ ترے غم میں جو گزارا تھا
سکون خاطر بے اختیار ہے اب بھی
وہ کشت دل کہ جسے آنسوؤں نے سینچا تھا
حریف چشمک و برق و شرار ہے اب بھی
خزاں نے یوں تو کئی سبز باغ دکھلائے
بہار منتظر نو بہار ہے اب بھی
روش روش پہ ہیں چرچے خزاں نصیبی کے
کلی کلی کی نظر سوگوار ہے اب بھی
لہو ٹپکتا ہے گلچیں کی آستینوں سے
قبائے لالہ و گل داغ دار ہے اب بھی
بہت قریب ہیں اب بھی قفس کی دیواریں
بہت بلند سر شاخسار ہے اب بھی
نظم
اے نگار وطن
اختر پیامی