عشق کی تند خیزی کے اوقات آخر ہوئے
اے مبارز طلب زندگی
الوداع
الوداع..... اپنے اوقات آخر ہوئے
خواب کی لہر میں
درد کے شہر میں
گرد..... رخت سفر
دل لہو میں ہے تر
زندگی کٹ گئی تیغ کی دھار پر
سجدہ کرتے جبیں کتنی زخمی ہوئی
اور خدا آج تک ہم سے راضی نہیں
اور زمیں سخت ہے
منزلیں گرد ہیں
بادلوں کی طرح غم برستا رہا
چار جانب یہاں آگ ہی آگ ہے
اے مبارز طلب زندگی
پیار کے پھول لے
درد کی دھول لے
میرے ہونے کے سب خواب لوٹا مجھے
آخری شام ہے
آخری معرکہ ہے
کہ پھر اس کے بعد
ہم کہاں تم کہاں
اور ہوئے بھی اگر تو پھر ایسے کہاں
آخری وار تیرا ہے کاری بہت
غم کی شدت سے دل میرا بھاری بہت
وار
اک اور وار
موت کے سرد بوسے سے سرشار دل
تیری قربت کی چاہت میں مرتا رہا
عمر بھر تجھ سے جاری رہا معرکہ
اے مبارز طلب زندگی
دن بھی ڈھل ہی گیا
شام بھی تھک گئی
روح عمر رواں
ہو رہی ہے اذاں
شام ڈھلنے سے پہلے ہمیں اجر دے
یوں ہمیں اجر دے
جاں رہے ہی نہیں
خستہ تن میں کہیں
ہم کہیں الوداع
الوداع
اے مبارز طلب زندگی
عشق کی تند خیزی کے اوقات آخر ہوئے
زندگی تیرے لمحات آخر ہوئے
نظم
اے مبارز طلب
فہیم شناس کاظمی