بین کرنے والوں نے
مجھے ادھ کھلے ہاتھ سے قبول کیا
انسان کے دو جنم ہیں
پھر شام کا مقصد کیا ہے
میں اپنی نگرانی میں رہی اور کم ہوتی چلی گئی
کتوں نے جب چاند دیکھا
اپنی پوشاک بھول گئے
میں ثابت قدم ہی ٹوٹی تھی
اب تیرے بوجھ سے دھنس رہی ہوں
تنہائی مجھے شکار کر رہی ہے
اے میرے سر سبز خدا
خزاں کے موسم میں بھی میں نے تجھے یاد کیا
قاتل کی سزا مقتول نہیں
غیب کی جنگلی بیل کو گھر تک کیسے لاؤں
پھر آنکھوں کے ٹاٹ پہ میں نے لکھا
میں آنکھوں سے مرتی
تو قدموں سے زندہ ہو جاتی
نظم
اے میرے سر سبز خدا
سارا شگفتہ