تمام عمر کے سود و زیاں کا بار لیے؟
ہر انقلاب زمانہ سے منہ چھپائے ہوئے
حیات و مرگ کی سرحد پہ نیم خوابیدہ
میں منتظر تھا
مسرت کی کوئی دھندلی کرن
زماں مکاں سے پرے اجنبی جزیروں سے
دم سحر مجھے خوابوں میں ڈھونڈتی آئے
فشار وقت کی سرحد سے دور لے جائے
کھلی جو آنکھ
طلوع سحر نے ہنس کے کہا
حصار وقت سے آگے کوئی مقام نہیں
سمجھ سکو، تو زمان و مکاں کی قید نہیں
سمجھ سکو
تو یہی ذات بے کراں بھی ہے
نظم
اے جوئے آب
محمود ایاز