EN हिंदी
اے ہجر زدہ شب | شیح شیری
ai hijr-zada shab

نظم

اے ہجر زدہ شب

امجد اسلام امجد

;

اے ہجر زدہ شب
آ تو ہی مرے سینے سے لگ جا کہ بٹے غم

احساس کو تنہائی کی منزل سے ملے رہ
آواز کی گمنام زمینوں کو ملے نم

آ کچھ تو گھٹے غم
اس ساعت مہجور کی فریاد ہو مدھم

کیوں نوحہ بہ لب پھرتی ہے محروم مخاطب
اے ہجر زدہ شب

دیکھ آج تمناؤں کی بے سمت ہوائیں
دل شرمندہ نظر کو

پھر لے کے چلی ہیں وہی بے رخت ہوائیں
اسی جادو کے نگر کو

جس خاک پہ اترے تھے مرادوں کے صحیفے
سنکی تھی جہاں سبز ہوا، کوئے وفا کی

مہکے تھے جہاں پھول صفت رنگ کسی کے
اس خاک کا ہر روپ مرے واسطے زندان

کچھ روٹھے ہوئے خواب ہیں کچھ ٹوٹے ہوئے مان
کچھ برسے ہوئے ابر ہیں کچھ ترسے ہوئے لب

اے ہجر زدہ شب
آ تو ہی گلے لگ کے بتا کون یہاں ہے

جز خود سری موج ہوا کون یہاں ہے
ہمدرد مرا تیرے سوا کون یہاں ہے

آ چوم لوں آنکھیں تری رخسار ترے لب
اے ہجر زدہ شب