اے فرنگی کبھی سوچا ہے یہ دل میں تو نے
اور یہ سوچ کے کچھ تجھ کو حیا بھی آئی
نا مبارک تھا بہت ہند میں آنا تیرا
قحط آیا تیرے ہمراہ وبا بھی آئی
تیرے قدموں سے لگی آئی غلامی ظالم
ساتھ ہی اس کے غریبوں کی بلا بھی آئی
بن گئی باد سموم آہ اثر سے تیرے
اس چمن میں جو کبھی باد صبا بھی آئی
تیری کلچر میں چمک تو ہے مگر اس میں نظر
کبھی کچھ روشنئ صدق و صفا بھی آئی
یہی کلچر سبب پستئ اخلاق ہوئی
ہندیوں میں اسی کلچر سے ریا بھی آئی
جائے شکر اس میں شکایات تری بیداد کی تھی
غم نصیبوں کو اگر یاد خدا بھی آئی
تیری سنگینیں چمکنے لگیں سڑکوں پہ جوں ہی
لب پہ مظلوموں کے فریاد ذرا بھی آئی
درد افلاس کا نیزوں سے کیا تو نے علاج
موت بن کر تیرے ہاتھوں میں شفا بھی آئی
اس روش پر کبھی اے بانیٔ بیداد تجھے
دل کے اندر سے ملامت کی صدا بھی آئی
نظم
اے فرنگی
میلہ رام وفاؔ