اے دل ہم تنہا آج بھی ہیں
ان زخموں سے
ان داغوں سے
اب اپنی باتیں ہوتی ہیں
جو زخم کہ سرخ گلاب ہوئے
جو داغ کہ بدر منیر ہوئے
اس طرح سے کب تک جینا ہے
میں ہار گیا اس جینے سے
کوئی ابر اٹھے کسی قلزم سے
رس برسے میرے ویرانے پر
کوئی جاگتا ہو کوئی کڑھتا ہو
میرے دیر سے واپس آنے پہ
کوئی سانس بھرے میرے پہلو میں
اور ہاتھ دھرے میرے شانے پر
اور دبے دبے لہجے میں کہے
تم نے اب تک بڑے درد سہے
تم تنہا تنہا چلتے رہے
تم تنہا تنہا جلتے رہے
سنو تنہا چلنا کھیل نہیں
چلو آؤ میرے ہم راہ چلو
چلو نئے سفر پر چلتے ہیں
چلو مجھ کو بنا کے گواہ چلو
نظم
اے دل پہلے بھی ہم تنہا تھے
ساقی فاروقی