تیرگی ہے کہ امنڈتی ہی چلی آتی ہے
شب کی رگ رگ سے لہو پھوٹ رہا ہو جیسے
چل رہی ہے کچھ اس انداز سے نبض ہستی
دونوں عالم کا نشہ ٹوٹ رہا ہو جیسے
رات کا گرم لہو اور بھی بہہ جانے دو
یہی تاریکی تو ہے غازۂ رخسار سحر
صبح ہونے ہی کو ہے اے دل بے تاب ٹھہر
ابھی زنجیر چھنکتی ہے پس پردۂ ساز
مطلق الحکم ہے شیرازۂ اسباب ابھی
ساغر ناب میں آنسو بھی ڈھلک جاتے ہیں
لغزش پا میں ہے پابندیٔ آداب ابھی
اپنے دیوانوں کو دیوانہ تو بن لینے دو
اپنے مے خانوں کو مے خانہ تو بن لینے دو
جلد یہ سطوت اسباب بھی اٹھ جائے گی
یہ گراں بارئ آداب بھی اٹھ جائے گی
خواہ زنجیر چھنکتی ہی چھنکتی ہی رہے
نظم
اے دل بے تاب ٹھہر
فیض احمد فیض