اگر تم بیچنا چاہو
ادائیں بھی وفائیں بھی
حسیں خوابوں کے رنگوں کی ردائیں بھی
یہ دنیا ہے
یہاں آواز بکتی ہے
یہاں تصویر بکتی ہے
یہاں پر حرف کی حرمت
یہاں تحریر بکتی ہے
یہ بازار جہاں اک بیکراں گہرا سمندر ہے
یہاں پر کشتیاں ساحل پہ آ کر ڈوب جاتی ہیں
مسافر مر بھی جاتے ہیں
مگر رونق نہیں جاتی
یہ انسانوں کا جنگل ہے
اور اس جنگل کا سماں ہر وقت رہتا ہے
اگر تم بیچنا چاہو
ادائیں بھی وفائیں بھی
حسیں خوابوں کے رنگوں کی ردائیں بھی
مرے دل میں بھی اک بازار سجتا ہے
جہاں پر شام ہوتے ہی ہجوم یاس ہوتا ہے غموں کی بھیڑ لگتی ہے
کئی یوسف سر بازار بکتے ہیں اگر تم بیچنا چاہو
نظم
اگر تم بیچنا چاہو
کرامت بخاری