اب کے برس چومکھ میں
ایک عظیم فراق کی برف پڑی ہے
کہساروں نے
کافوری قبریں اوڑھی ہیں
کسی قدم کا نقش
کوئی دھنستا ہوا پاؤں
کوئی پھسلتا خندہ
کوئی کلکاری
کچھ بھی نہیں
کچھ بھی تو نہیں
سارے میں
اک مرمر ایسی
بے حس یخ کی شوک
دہک رہی دھرتی کے سینے اوپر
مرہم ایسی
منفی دس کی مری پڑی خاموشی
ایک شہید چنار کے پہلو سے باہر کو نکلا
اک خوش خصلت
ننھا منا ہات
جو آتے جاتے
نوحے پڑھتے جھونکوں میں
دور دراز کے ہنستے بستے شہروں کی
آنکھوں کی جانب
جو کبھی اس کو دیکھ نہیں پائیں گی
ایک وداع دائم کے انداز میں لرزاں ہے
نظم
آفٹر شاکس
انوار فطرت