EN हिंदी
ادھوری موت کا کرب | شیح شیری
adhuri maut kar karb

نظم

ادھوری موت کا کرب

زاہد امروز

;

اس نے مجھ سے محبت کی
میں نے اسے اپنا سینہ چھونے کو کہا

اس نے میرا دل چوم کر
مجھے امر کر دیا

میں نے اس سے محبت کی
اس نے مجھے دل چومنے کو کہا

میں نے اس کا سینہ چھو کر
اسے ہدایت بخشی

ہم دونوں جدا ہو گئے
جدائی نے ہمارے خواب زہریلے کر دیے

یک سانسی موت اب ہماری پہلی ترجیح ہے
تنہائی کا سانپ ہمیں رات بھر ڈستا رہتا ہے

اور صبح اپنا زہر چوس کر
اگلی رات ڈسنے کے لیے

زندہ چھوڑ جاتا ہے